Home सांस्कृतिक سالار نگرجلگاوں میں مدارس کے فارغین کی اعلی عصری تعلیم پر مذاکرے...

سالار نگرجلگاوں میں مدارس کے فارغین کی اعلی عصری تعلیم پر مذاکرے کا انعقاد

658

جلگاوں کے سالار نگر میں ڈاکٹر اقبال شاہ کی رہائش کے وسیع دالان میں مدارس کے فارغ طلب کی اعلی تعلیم کے حصول پرایک اہم علمی مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس مذاکرہ کی صدارت ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے کی۔ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے ناظم تعلیمات مولانا حذیفہ وستانوی مذاکرہ میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ علاقہ خاندیش کی اعلی تعلیم سے وابستہ اہم شخصیات موجود تھیں۔ تلاوت کلام پاک سے اس محفل مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر اقبال شاہ نے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدارس کا نظام تعلیم اخلاقی تعلیم کی ایک اہم مثال ہے۔ہندوستان بھر میں تقریبا تیس ہزار مدارس ہیں جہاں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مدرسہ کے اس نظام کو قومی دھارے میں شامل کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سچر کمیٹی اور وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام میں بھی اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ مدرسہ کی اسناد کو یونیورسٹی اور کالجوں میں تسلیم کیا جائے۔ انھیں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی نے بھی بی اے اور ایم اے کے کورسوں میں داخلہ کے لئے مدارس کی ڈگری کو تسلیم کرنے کا ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے۔ یونیورسٹی کے اس فیصلہ پر عمل درآمد کی ممکنہ دشواریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مذاکرہ کا انعقاد عمل میں آیا ہے۔ ڈاکٹر آفاق انجم نے بورڈ آف اسٹڈیز کے چیئرمن کی حیثیت سے ڈاکٹر اقبال شاہ سر کی کوششوں کو سراہا ان کی مسلسل جد وجہد کے نتیجہ میں علماء و فضلاء مدارس کے اعلی تعلیم کے لئے مواقع فراہم ہوئے ھیں۔ کوہ نور کالج آف آرٹس اینڈ سائنس کے پرنسپل ڈاکٹر ذاکر علی نے مدارس کے ذریعہ ایک بریج کورس چلائے جانے کی رائے پیش کی تاکہ مدارس کے فضلاء جب ماڈرن ایجوکیشن میں آئیں تو وہ اس کے لئے تیار ہوں اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹر مناف شیخ نے مدارس کی انڈیکسنگ کی بات کی۔ انھوں نے کہا یونیورسٹی کے اس فیصلہ کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کے لئے مدارس کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات معیاری ہونی چاہئے۔ تاکہ داخلہ اور اہلیت حاصل کرنے کے مراحل میں دشواری پیش نہ آئے۔ مناف شیخ سر نے الیجیبلیٹی کے طریقہ کار پر بھی روشی ڈالتے ہوئے مدارس کی اسناد کے متعلق تحفظات کی نشاندھی کی۔ اقراء ایچ جے تھم کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سید شجاعت علی نے کچھ اہم تیکنیکی معاملات کی جانب توجہ دلائی ۔ اور فضلاء مدارس کے لئے امکانات پیدا ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ڈاکٹر وقار شیخ نے کہا کہ ہم مدارس کے فارغین کی رہنمائی پر توجہ دیں ان کو اعلی تعلیم کی اہمیت سمجھاکر داخلہ لینے پر آمادہ کریں اور خاص طور پر ابتدائی سالوں میں اہلیتی مراحل سے گذرتے ہوئے کوئی تیکنیکی دشواری پیدا ہوتی ہے تو فورا اس کا تصفیہ کریں۔ ڈاکٹر ایم اقبال نے زور دیا کہ مدارس کی اسناد انگریزی زبان میں ہوں ۔ ٹرانسفر سرٹیفکٹ دیا جائے وہ بھی انگریزی میں ہو اور عالمیت اور فضیلت کے آخری سال میں انگریزی زبان کا ایک پیپر ہو۔ تاکہ مدرسہ سے جاری کردہ اس مارکشیٹ کو تسلیم کیا جاسکے۔ ڈاکٹر ساجد علی قادری نے یونیورسٹی میں شعبہ اردو شروع کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ الحاج عبد الغفار ملک نے اس مقصد کے لئے اپنی جانب سے پوری طرح تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ مولانا حذیفہ وستانوی صاحب نے فضلاء مدارس کے تئیں فکرمندی کے لئے بورڈ آف اسٹڈیز کے سابق و موجود چیئرمین حضرات کےلئے شکر گذاری کا اظہار کیا ۔ اور جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا مدرسے کے بچوں کو دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی کس طرح آراستہ کررہا ہے اس کا جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے مہاراشٹر میں ایک *پرائویٹ مدرسہ بورڈ* کے قیام کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ خطبہ صدارت میںڈاکٹر عبد الکریم سالارنے بڑی پر مغز تقریر کی ۔ پیشرو مقریرین کی گفتگو کے مختلف نکات پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ سالار صاحب نے مولانا وستانوی صاحب کو جامعہ کے زیر اہتمام مقابلہ جاتی امتحانات کا سینٹر شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس میں ریاست اور ملک کے علماء،فضلا اور حفاظ کی ذھانت کے پیش نظر انھیںUPSC اور MPSC امتحانات کی تیاری کی جاسکے ۔ مذاکرہ کے انعقاد پر ڈاکٹر اقبال شاہ کو مبارکباد دی۔ دیگر شرکا میں شہر قاضی مفتی عتیقالرحمان،مولانا سلمان سالق،ڈاکٹر ہارون بشیر، رفیق شاہ سر،عبدالقیوم شاہ سر اور علمائے دین شامل تھے۔مذاکرہ کی نظامت قاضی مزمل الدین ندوی نے سنبھالی۔ خطبہ صدارت کے بعد ڈاکٹر وقار شیخ سر نے مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد مذاکرہ کے میزبان ڈاکٹر اقبال سر کی فیملی کی جانب سے ظہرانہ کا انتظام کیا گیا،تمام شرکاء نے اس پرتکف دعوت کا لطف اٹھایا۔